اردو کے مشہور شاعر اور مثنوی نگار نواب مرزا شوق کا زمانہ تھا 1773ءسے 1871ءکا اور وہ لکھنو¿ کے صاحبِ حیثیت لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔
خاندان میں سبھی طب سے وابستہ تھے اور یہی پیشہ نواب مرزا نے بھی اختیار کیا۔ لکھنو¿ میں ہر طرف شعر و سخن کا بول بالا تھا، اور مرزا بھی شاعر ہوئے۔ خواجہ آتش کو اپنا استاد بنایا۔ شوخی، عیش پسندی اور مزاج میں رنگینی لڑکپن ہی سے تھی۔ ان کا سرمایہ حیات تین مثنویاں بتائی جاتی ہیں جو بہت مشہور ہیں، لیکن اخلاقی نقط نظر سے قابلِ گرفت اور شرفاء کے لیے ناگوار ہیں۔
عبدالماجد دریا بادی مرزا شوق کی وفات کے بیس برس بعد پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنے وقت کے جیّد عالمِ دین، بے مثل اور صاحبِ اسلوب ادیب ہوئے اور یہ پیشِ نظر مضمون انہی کا ہے جس میں دریا بادی صاحب نے لکھنو¿ کے ماحول، ادبی فضا کا نقشہ کھینچا اور اپنے منفرد اور دل نشیں پیرایہ اظہار کے ساتھ مرزا شوق کا احوالِ زیست، ان کا مذاقِ سخن بیان کرتے ہوئے ان کو اشعار میں ابتذال اور پست باتیں کرنے پر مطعون کیا ہے، لیکن مراز کے فنِ شعر گوئی اور زبان پر ان کے عبور کو بھی سراہا ہے۔
یہاں ہم عبدالماجد دریا بادی کے اسی مضمون کو مختصر کر کے پیش کر رہے ہیں، وہ لکھتے ہیں:لکھنو ہے اور واجد علی شاہ ”جانِ عالم“ کا لکھنو۔ زمانہ یہی انیسویں صدی عیسوی کے وسط کا۔ آج سے کوئی ستّر پچھتر سال قبل۔
ہر لب پر گل کا افسانہ، ہر زبان پر بلبل کا ترانہ، ہر سر میں عشق کا سودا، ہر سینہ میں جوشِ تمنا، ہر شام میلوں ٹھیلوں کا ہجوم، ہر رات گانے بجانے کی دھوم، یہاں رہس کا جلسہ، وہاں اندر سبھا کی پریوں کا پرا، ادھر زبان پر ضلع جگت اور پھبتیاں، ادھر گلے سے تانیں اور ہاتھوں سے تالیاں، گلی گلی ”جنّت نگاہ فردوس گوش“، چپہ چپہ ”دامانِ باغبان و کفِ گل فروش۔“ بڑے بڑے متین اور ثقہ، گویوں اور سازندوں کی سنگت میں، اچھے اچھے مہذب اور مقطع بھانڈوں اور ڈھاریوں کی صحبت میں سفید پوشوں کے دامن عبیر اور گلال کی پچکاریوں سے لالوں لال، جبّے اور عمامے والے، پیشوازوں کی گردش پر نثار۔ غرض یہ بیسویں صدی کی اصطلاح میں ”آرٹ“ اور ”فائن آرٹ“ کا دور دورہ، عشق کا چرچا، حسن کا شہرہ۔
اس فضا میں ایک صاحب حکیم تصدق حسین نامی آنکھیں کھولتے ہیں۔ کوئی عالمِ دین نہیں، صوفی اور درویش نہیں، واعظ و مصلح نہیں۔ چونچلوں کے آدمی، یار باش، رندِ مشرب، اہلِ بزم کے خوش کرنے کو شعر و شاعری کا ساز لے کے بیٹھے تو انگلیاں انہیں پردوں پر پڑیں جن کے نغمے کانوں میں رچے ہوئے تھے اور منہ سے بول نکلے تو وہی، جن کے نقش دلوں میں جمے ہوئے تھے۔ غزلیں شاید زیادہ نہیں کہیں، کہی ہوں گی بھی تو اس وقت کسی کی زبان پر نہیں، تھوڑا بہت جو کچھ کہا۔ اس کا نمونہ ملاحظہ ہو۔
کہنے میں نہیں ہیں وہ ہمارے کئی دن سے
پھرتے ہیں انہیں غیر ابھارے کئی دن سے
اک شب مرے گھر ان کے مہمان رہے تھے
ملتے نہیں اس شرم کے مارے کئی دن سے
حکیم صاحب کی حکمت و طبابت سے یہاں غرض نہیں، شاعری کی دنیا میں حکیم صاحب کا نام نواب مرزا ہے اور تخلص شوق اور ان کے نام کو قائم رکھنے والی ان کی غزلیں نہیں، مثنویاں ہیں۔ تذکروں میں ہے کہ خواجہ آتش کے شاگرد تھے، ہوں گے لیکن یہ مثنویاں یقیناً یا تو استاد کے بعد کی ہیں یا ان کی زندگی میں ان سے چرا چھپا کر کہی ہیں۔ ورنہ آتش کی نظر پڑنے کے بعد عجب نہیں کہ نذرِ آتش ہو جاتیں۔
