تحریر۔۔راجہ شہزاد معظم
قارئین محترم! نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے جس نے ایک درخت لگایا اس نے جنت میں اپنا گھر بنایا۔ دوسرے لفظوں میں درختوں کی حفاظت کا عندیہ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے۔تمام جاندار بشمول انسان عمل تنفس کے دوران آکسیجن گیس استعمال کرتے ہیں جو کہ پودوں سے ضیائی تالیف کے عمل کی وجہ سے خارج ہوتی ہے۔یہی آکسیجن جسم میں داخل ہو کر نہ صرف خون کو صاف کرتی ہے بلکہ غذا کی oxidationکر کہ اسے توانائی میں بدلتی ہے۔اگر خدانخواستہ درخت نہ ہوں تو ہم دم گھٹ کر یا بھوک کی وجہ سے مر جائیں۔
قارئین! حیرت انگیز اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ اگر جنگلات اور پودے نہ ہوں تو اس کائنات میں کسی بھی ذی روح کا زندہ رہنا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہو جائے۔بعض جاندار بالواسطہ پودوں سے خوراک حاصل کرتے ہیں انہیں primary consumersکہا جاتا ہے۔کچھ جاندار ایسے ہیں جو بلا واسطہ پودوں سے اپنی غذائیت پوری کرتے ہیں انہیں بالترتیب secondary اور tertiorary کنزیومرز کہا جاتا ہے۔انسان بھی پودوں سے بالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں طریقوں سے خوراک حاصل کرتا ہے۔
ہماری بد قسمتی ہے کہ لا علمی اور شعور کی کمی کی وجہ سے ہم بلا وجہ درختوں کی بے دریغ کٹائی کر رہے ہیں۔اس کے علاوہgrazing اورbrowzingکی وجہ سے بھی قدرتی ماحول بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ہم لوگ وقتی فائدے کے لئے آنے والی نسلوں کا بیڑا غرق کر رہے ہیں۔نئی عمارات،سڑکیں اور دیگر تعمیرات کی وجہ سے پودوں کی کٹائی کی جا رہی ہے۔اس وجہ سے نہ صرف آکسیجن کم ہو رہی ہے بلکہ دنیا کا درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔اور موسمیاتی تبدیلیاں ظہور پزیر ہو رہی ہیں۔
گلوبل وارمنگ ،گلیشئرز کا پگھلنا ،گرین ہاﺅس ایفکٹ اور اوزون طے کی تباہی درختوں کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے دنیا کے لئے خطرے کا الارم ہے۔یوں لگتا ہے کہ جس رفتار سے درختوںکو کاٹا جا رہا ہے اس سے ساری زمیں بنجر ہو جائے گی اور جانداروں کی بقاءمشکل ہو جائے گی۔
اکثر جانداروں کا قدرتی مسکن جنگلات اور درخت ہوتے ہیں۔جب یہ کاٹ دئیے جاتے ہیں تو جانداروں کے رہنے کے لئے جگہ برباد ہو جاتی ہے۔اس طرح جاندار ختم ہونا شروع کر دیتے ہیں۔اسی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ بغیر شدید ضرورت کے درختوں کو کاٹنا انسانیت کے لئے موت کا پیغام ہے۔
سائنسدان درختوں کو قدرت کے پھیپھڑے کہتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سارے درخت آکسیجن گیس خارج کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جو کہ ایک زہریلی گیس ہے اسے جذب کرتے ہیں۔درختوں سے خارج ہونے والی آکسیجن سے جاندار عمل تنفس کے ذریعے خوراک کو ہضم کر کہ خون میں شامل کرتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر درختوں کی کٹائی پر سخت پابندی عائد کی جائے۔اور پوری دنیا میں ایک دفعہ سالانہ پودوں کا عالمی دن بھی منایا جائے۔تا کہ ہم جو اپنے پاﺅں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں اس سے بچا جا سکے۔پودوں کی اہمیت اور جنگلات کی افادیت مسلمہ ہے لیکن ان کو پیشہ ورانہ طور پر کاٹنا سرا سر ظلم ہے۔
جنگلات سے عمارتی لکڑی حاصل ہوتی ہے، اعلیٰ قسم کا فرنیچر بنایا جاتا ہے اور انہیں بطور ایندھن بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ہمیں چاہئے کہ قدرتی جنگلات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ہر سال شجر کاری مہم میں بھی حصہ لیں۔اس سے ہمارا مستقبل محفوظ ہو گا۔جنگلات کی کٹائی ،گریزنگ اور براﺅزنگ کی وجہ سے زہریلی گیسیں فضاءمیں جمع ہوتی ہیں۔یہ گیسیں جانداروں کے لئے مضر ہیں۔جتنے زیادہ جنگلات ہوں گے ہم اتنے ہی خوشحال اور صحت مند ہوں گے۔کیوں کہ خدا نے جانداروں کو پیدا کر کہ باقی جانداروں کو دوام بخشا ہے۔
ہم جو بھی غذا حاصل کرتے ہیں وہ جنگلات کے مرہون منت ہے۔اس کے علاوہ قدرتی ماحول کا تحفظ بھی جنگلات سے متصل ہے۔آزاد کشمیر میں نیلم ویلی ،باغ،دھیرکوٹ،لس ڈنہ اور سدھن گلی میں قدرتی جنگلات پائے جاتے ہیں جب کہ پاکستان میں مری، کاغان، ناران اور سوات وغیرہ میں بے شمار قدرتی جنگلات موجود ہیں۔ان درختوں کو تجارتی پیمانے پر استعمال کر کہ حکومت کثیر زر مبادلہ حاصل کرتی ہے۔
محکمہ جنگلات کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی چاہئے کہ وہ ہر حال میں قدرت کے پھیپھڑوں کی حفاظت کی جائے۔یہ صرف حکومت یا محکمہ جنگلات کی ذمہ داری نہیں کہ وہی درختوں کی حفاظت کریں۔عوام الناس کو بھی چاہئے کہ وہ آنی والی نسلوں کی بہتری کے لئے درختوں کی حفاظت کریں۔حکومت کے ساتھ ساتھ عوام میں اس بات کا شعور پیدا کرنا لازمی ہے کہ درختوں میں ہماری زندگی کا راز مضمر ہے۔ابھی پودے لگانے کا seasonہے سب لوگ تہیہ کر لیں کہ وہ ایک ایک پودا لگائیں گے تو آپ اندازہ کریں کہ ہمارا دیس کتنا ہرا بھرا ہو جائے گا۔
ہمیں چاہئے کہ پمفلٹس اور بینرز کے ساتھ ساتھ وال چاکنگ کر کہ عوام کو جنگلات کی اہمیت سے روشناس کروایا جائے۔ اس کے علاوہ ہر سال مختلف سیمنارز منعقد کئے جائیں تا کہ لوگوں کو جنگلات کی اہمیت کا شعور اور آگاہی حاصل ہو۔جب تک عوام میں شعور اجاگر نہیں ہو گا درخت اسی طرح کاٹے جاتے رہیں گےاور ماحول تباہ ہوتا رہے گا۔اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہر گلی اور محلے میں چھوٹے پیمانے پر میٹنگز کر کہ لوگوں کو جنگلات کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کیا جائے۔اس بات کو حتمی تصور کئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ پودوں کی بقاءمیں ہماری بقاءمضمر ہے۔
