تحریر۔۔ رفیع صحرائی
بادشاہ سلامت وفات پا چکے تھے۔ مرحوم بادشاہ کو یاد کر کے ہر آنکھ اشکبار تھی۔ مگر احتیاط کی جا رہی تھی کہ بادشاہ کے مرنے کی خبر سلطنت میں نہ پھیلے۔ صرف محل کے اندر موجود لوگوں کو ہی بادشاہ کی وفات کا علم تھا۔ تدفین کا مرحلہ بہت دور تھا۔ جب تک نئے بادشاہ کا تقرر نہ ہو جاتا تب تک تدفین کا عمل شروع نہیں ہو سکتا تھا اس لےے سب کو صبح ہونے کا انتظار تھا۔
بادشاہ کی تقرری رعایا کے لےے کوئی اہم مسئلہ نہیں تھی۔ اس ملک میں موروثی حکمرانی کا رواج نہ تھا۔ انہوں نے بادشاہ کے چناﺅ کے لےے بہت سادہ طریقہ اختیار کر رکھا تھا۔ جب بادشاہ فوت ہو جاتا تو اس کی میّت محل کے ایک کمرے میں رکھ دی جاتی تھی اور ہر ممکن احتیاط برتی جاتی تھی کہ وفات کی خبر محل سے باہر نہ نکلے۔ رات کے وقت شہر پناہ کے دروازے بند کرنے اور علی الصبح کھولنے کا رواج تھا۔ بادشاہ کی وفات کے بعد جب صبح شہر کے دروازے کھولے جاتے تو جو شخص شہر میں سب سے پہلے داخل ہوتا اسے متفقہ طور پر بادشاہ چن لیا جاتا تھا۔
اب یہ اتفاق کی بات تھی کہ اِس مرتبہ جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہوا وہ ایک ملنگ تھا۔ رواج کے مطابق اس ملنگ کو محل میں لے جایا گیا اور نہلا دھلا کر تخت پر بٹھا دیا گیا۔ نئے بادشاہ سلامت نے جو پہلا فرمان جاری کیا وہ تھا،
”حلوہ پکاﺅ“
فوری طور پر حلوہ تیار کیا گیا اور بادشاہ کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔ اب ایسا تھا کہ صبح، دوپہر، شام حلوے کا دَور چلنے لگا۔ بادشاہ کے وزراءاور مشیران جب بھی کسی کام کے بارے میں پوچھتے تو حکم ہوتا،
”حلوہ پکاﺅ“
امورِ سلطنت چلانے کا تجربہ ہوتا تو بادشاہ اس طرف توجہ دیتا، اسے دن رات حلوہ کھانے کی پڑی ہوئی تھی۔ سلطنت تباہ اور رعایا تباہ حال ہوتی گئی مگر بادشاہ سلامت ہر مسئلے کا ایک ہی حل بتاتے،
”حلوہ پکاﺅ“
ملحقہ سلطنت کے بادشاہ کو جب اس صورتِ حال کا علم ہو تو اس نے لشکر کشی کر دی۔ سپہ سالار ”ملنگ بادشاہ“ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دشمن کی چڑھائی کی خبر دے کر احکامات طلب کےے۔ حکم ہوا،
”حلوہ پکاﺅ“
حلوے کی دیگیں چڑھا دی گئیں۔ دو دن بعد سپہ سالار دوبارہ بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضر ہوا اور اطلاع دی کہ دشمن افواج نے ہماری آدھی سلطنت پر قبضہ کر لیا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا،
”حلوہ پکاﺅ“
حکم کی تعمیل ہوئی اور حلوہ تیار ہونے لگا۔ مزید دو دن گزرے تو ایک مرتبہ پھر سپہ سالار حاضر ہوا کہ دشمن فوج نے شہر پناہ کا محاصرہ کر لیا ہے۔ اب کیا کرنا ہے؟ حکم ہوا،
”حلوہ پکاﺅ“
حلوہ بادشاہ سلامت کی خدمت میں پیش کیا گیا اور وہ رغبت سے کھانے لگا۔ ابھی اس نے حلوہ ختم ہی کیا تھا کہ سپہ سالار دوڑتا ہوا آیا اور اس نے بادشاہ سلامت کو ہانپتے ہوئے بتایا کہ دشمن فوج دروازے توڑ کر شہر میں داخل ہو چکی ہے۔
ملنگ بادشاہ نے اطمینان کے ساتھ حلوے کی پلیٹ ایک طرف رکھی، منہ صاف کیا، اپنا ملنگوں والوں چولا منگوا کر پہنا اور یہ کہتے ہوئے ایک طرف کو چل دیا،
”ہم تو حلوہ کھانے آئے تھے، وہ کھا لیا۔ اب آپ جانیں اور آپ کا ملک جانے“
بظاہر تو یہ ایک کہانی ہے مگر غور کریں تو یہ ہماری اپنی ہی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں آج تک کوئی قابل حکمران مل ہی نہیں سکا۔ ہمیں صرف حلوہ کھانے والے ہی ملے ہیں جنہوں نے اس ملک اور اس کے خزانے کو حلوہ سمجھ کر کھایا۔ نہ کسی نے رعایا کا سوچا اور نہ ہی ملک کا۔ ہر ایک نے اپنا پیٹ اور تجوریاں بھریں۔ رعایا نے جس کو بھی مسیحا سمجھ کر بادشاہ بنایا وہ ”ملنگ بادشاہ“ ہی ثابت ہوا۔ ان ملنگ بادشاہوں کی ہوسِ اقتدار نے ہمارا ایک بازو مشرقی پاکستان کٹوا دیا مگر ہمارے ملنگ بادشاہوں کو حلوہ کھانے سے فرصت نہ ملی۔ یہ ضرور ہوا کہ حلوے کے شوقین ملنگوں کی تعداد بڑھتی گئی اور حلوے کی چھینا جھپٹی میں رعایا پر سے سب کی توجہ ہٹ گئی۔ ملک برباد کر دیا ہے ان حلوہ خوروں نے۔ ان کا حلوہ پورا کرتے کرتے خزانہ خالی ہو گیا، ٹیکسوں کے نام پر عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا گیا مگر ان کے پیٹ عمروعیار کی زنبیل بنے ہوئے ہیں۔ اپنے حلوے کی خاطر عوام کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کر ڈالر کھرے کےے جانے لگے مگر ان ڈالروں میں ”شودر عوام“ کے لےے اونٹ کے منہ میں زیرہ جتناحصہ بھی نہیں ہوتا۔ وہ ڈالر صرف ”برہمن“ طبقے کے حلوے کے لےے ہوتے ہیں۔ ہاں اس قرض کی ادائیگی شودر طبقہ ہی اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ٹیکسوں کی صورت میں کرتا ہے۔ لیکن یہ قرض ہے کہ شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
دور نہ جائیے، عمران خان نے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی کابینہ 12 وزراءتک محدود رہے گی مگر جب انہیں اقتدار ملا تو کابینہ کے ارکان کی تعداد ساٹھ سے بھی تجاوز کر گئی۔ موجودہ حکومت کو بھلا یہ کیسے گوارا ہو سکتا تھا کہ یہ منفی ریکارڈ عمران خان کے پاس چلا جائے چنانچہ انہوں نے اپنی 78 رکنی کابینہ میں مزید 7 معاونینِ خصوصی کا اضافہ کر کے کابینہ کے ارکان کی تعداد 85 کر کے ایسا ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا ہے جسے آئندہ شاید کبھی نہ توڑا جا سکے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق آدھی کابینہ تنخواہ اور سرکاری مراعات نہیں لیتی۔ مگر ان کو قلمدان سونپے گئے ہیں تو دفاتر بھی یقیناً الاٹ کےے گئے ہیں۔ عملہ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ گاڑیاں بھی مخصوص کی گئی ہوں گی۔ دفاتر میں اخراجات بھی ہوتے ہوں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کابینہ میں سات ارکان کا اضافہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب آئی ایم ایف سے قرض کی بھیک کی ڈیل آخری مراحل میں تھی اور عوام کو مہنگائی کی چکی میں باریک پیسنے کے ”اصولی فیصلے“ کی وزیرِ اعظم نے منظوری دے دی تھی۔
امریکہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سوپر پاور ہے۔ اس کے وزراءکی کل تعداد 12 ہے۔ تیرہواں نائب صدر اور چودھواں صدر ہے۔ شاید وہاں کسی کو حلوہ کھانے کی اجازت نہیں ہے۔
خدارا اس ملک اور اس کے عوام پر اب رحم کیا جائے۔ مراعات یافتہ طبقے سے مراعات واپس لینے سے پہلے عوام پر کوئی ٹیکس نہ لگایا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کے اندر پکتا ہوا لاوا پھٹ پڑے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام اجتماعی خودکشیاں کر کے ایسی کٹھن زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگیں۔ خدارا اپنے حلوے کی خاطر پاکستان کو جہنم نہ بنائیں۔
