تحریر۔۔ رفیع صحرائی
آج کل ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال اس قدر عام ہو گیا ہے کہ ان پڑھ حضرات بھی اپنے پاس نہ صرف ٹچ موبائل یا آئی فون رکھتے ہیں بلکہ ان کے استعمال سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ فیس بک اور واٹس اپ موجودہ دور میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ایپلی کیشن بن گئی ہیں۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں بہت زیادہ سہولتیں دی ہیں وہیں پر کچھ پیچیدگیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔
پہلے فراڈیئے لوگ مختلف حیلوں بہانوں سے چکر دے کر لوٹتے تھے۔ اب یہ فراڈیئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے سادہ لوح لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ آئیے ٹھگ بازی کے ایک جدید طریقے سے آپ کو آگاہ کرتے ہیں تاکہ پڑھنے والے فراڈیوں کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔
میرے ایک دور کے کزن بیرسٹر شاہد انگلینڈ میں ہوتے ہیں۔ ایک دن مجھے فیس بک پر ان کی طرف سے فرینڈ ریکوئسٹ موصول ہوئی۔ مجھے کچھ عجیب سا لگا، کیونکہ وہ تو پہلے ہی میری فرینڈ لسٹ میں موجود تھے۔ بہرحال میں نے تازہ ریکوئسٹ یہ سمجھ کر قبول کر لی کہ شاید ان کے پہلے فیس بک اکائنٹ میں کوئی مسئلہ ہو گیا ہو۔ قریباً دو گھنٹے بعد مجھے میسنجر پر ان کا پیغام موصول ہوا کہ آپ کیسے ہیں؟ گھر والوں کا کیا حال ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ میں نے سب کی خیریت سے مطلع کیا۔ کہنے لگے ”آپ سے ایک کام ہے“
میں نے کہا”جی فرمائیے“
کہنے لگے ”ایک دوست کی والدہ راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں بہت سیریس حالت میں داخل ہیں۔ انہیں فوری طور پر پچاس ہزار روپوں کی ضرورت ہے۔ آج ہفتے کو ویک اینڈ کی وجہ سے میرے لئے رقم بھیجنا ممکن نہیں۔ اگر آپ انہیں پیسے بھیج دیں تو میں پرسوں آپ کے اکاﺅنٹ میں بھیج دوں گا“
ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا۔ میرے ساتھ ان کا پیسوں کے لین دین کا معاملہ نہیں تھا۔ ان کے فرسٹ کزنز کافی تعداد میں پاکستان میں موجود ہیں، پھر انہوں نے مجھ سے ہی پیسے کیوں مانگے؟ یہ سوچتے ہوئے مجھے ان کی طرف سے تازہ فرینڈ ریکوئسٹ یاد آ گئی اور میں سمجھ گیا کہ یہ کوئی فراڈیا ہے جو بیرسٹر شاہد کا فیک اکاﺅنٹ بنا کر پیسے بٹورنے کے چکر میں ہے۔ میں نے رقم بھیجنے کی حامی بھری تو انہوں نے مجھے ایک موبائل نمبر سینڈ کر دیا۔ میں نے بیرسٹر شاہد سے پوچھا کہ میرے پہلے والے پیسے کب واپس کریں گے آپ؟(حالانکہ میں نے ان سے کوئی پیسے نہیں لینے تھے)
جواب ملا ”وہ بھی ان پیسوں کے ساتھ ہی پرسوں بھیج دوں گا۔ آپ اپنا بنک اکاﺅنٹ نمبر سینڈ کر دیں“
میں نے کہا ”اسی اکاﺅنٹ میں بھیج دینا جس پر پہلے بھیجتے ہو“ اس نے کہا ”ٹھیک ہے“
میں نے پوچھا ”آپ اس وقت کہاں ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں امریکہ میں ہوں۔ میں نے کہا ”یہ کیسے ممکن ہے، صبح آپ سے جب بات ہوئی تو آپ اسلام آباد میں تھے، اتنی جلدی امریکہ کیسے پہنچ گئے؟“۔ اس کے بعد اس کا جواب آنا بند ہو گیا۔
میں نے فوری طور پر بیرسٹر شاہد سے رابطہ کیا۔ انہیں کسی بات کی خبر ہی نہ تھی۔ میں نے اور انہوں نے فوری طور پر اپنے اپنے فیس بک اکاﺅنٹ پر اس فیک اکاﺅنٹ سے متعلق دوستوں کو خبردار کرنے کے لئے پوسٹ لگا دی کہ اس فراڈیئے سے ہوشیار رہیں اور رقم ادا نہ کریں۔ ڈیڑھ درجن کے قریب دوستوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ بھی میسنجر پر رابطہ کر کے پچاس ہزار یا ایک لاکھ روپے بھیجنے کو کہا گیا تھا۔
میرے ایک دوست امتیاز نعیم امریکہ میں رہتے ہیں۔ تین چار ماہ قبل کسی فراڈیئے نے فیس بک پر ان کا فیک اکاﺅنٹ بنا کر دوستوں سے پیسے مانگنے شروع کر دیئے۔ مجھے بھی میسج ملا تو میں نے فوراً امتیاز نعیم سے رابطہ کیا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ کسی نے ان کا فیک اکاﺅنٹ بنایا ہے۔ میں نے اپنے اکاﺅنٹ پر پوسٹ لگا دی کہ دوست اس فراڈیئے سے ہوشیار رہیں مگر تب تک ہمارے مشترکہ دوست ملک صاحب اس فراڈیئے کے ہاتھوں لٹ چکے تھے۔ انہیں بھی ایک مریض کے لئے پچاس ہزار روپے بھیجنے کو کہا گیا تھا۔ وہ سادہ لوح انسان ہیں۔ جھانسے میں آ گئے اور بتائے ہوئے نمبر پر پچاس ہزار روپے بھیج دیئے۔ تھوڑی دیر بعد انہیں دوبارہ میسنجر پر میسج ملا کہ جلد بازی میں انہیں غلط نمبر بتایا گیا تھا اور رقم پتا نہیں کس کو سینڈ ہو گئی۔ اب آپ نئے نمبر پر پچاس ہزار روپے بھیج دیں۔ چونکہ پہلے بھیجے گئی رقم کے غلط نمبر پر بھیجنے میں آپ کا قصور نہیں تھا لہٰذا آپ کو پرسوں ایک لاکھ روپے مل جائیں گے۔ انہوں نے پہلی رقم کی واپسی کی خاطر دوبارہ پچاس ہزار روپے نئے نمبر پر بھیج دیئے۔ دس منٹ بعد ان کی نظر میری پوسٹ پر پڑی جس میں دوستوں کو ہوشیار رہنے کو کہا گیا تھا مگر تب تک وہ ایک لاکھ روپے سے محروم ہو چکے تھے۔
ان فراڈیوں کا یہ طریقہ واردات ہے کہ فیس بک پر دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کے نام سے فیک اکاﺅنٹ بناتے ہیں۔ ان کی اصل آئی ڈی سے تصاویر لے کر نئی آئی ڈی پر لگاتے ہیں اور اصل آئی ڈی کی فرینڈ لسٹ میں موجود دوستوں کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دیتے ہیں۔ اس کے بعد اوپر بتائے گئے طریقے کے مطابق پیسے بٹور لیتے ہیں۔ جن نمبروں پر پیسے منگوائے جاتے ہیں وہ سمیں بھی کسی اور کے نام پر رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ لوگ گلیوں اور بازاروں میں مختلف کمپنیوں کی سمیں مفت دینے کا اعلان کرتے پھرتے ہیں۔ گلیوں بازاروں میں چل پھر کر مفت سمیں دینے والے یہ لوگ سمیں لینے والے لوگوں کے ساتھ ہاتھ کرتے ہیں۔ وہ سم دیتے وقت بایو میٹرک تصدیق کے لئے دو مرتبہ انگوٹھے لگواتے ہیں۔ ایک مرتبہ کی تصدیق ہونے کے بعد سم خود رکھ لیتے ہیں۔ دوسری مرتبہ تصدیق کر کے صارف کو مفت سم دے دیتے ہیں۔ جو سِم وہ اپنے پاس رکھتے ہیں بعد ازاں وہ سم فراڈیوں کو مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں۔ جب اس سم کے ذریعے فراڈ ہو جاتا ہے تو پولیس یا ایف آئی اے کو شکایت کرنے پر بے گناہ لوگ پکڑے جاتے ہیں جبکہ اصل وارداتیوں کا پتا ہی نہیں چلتا۔
ایسے فراڈیوں سے خود بھی ہوشیار رہیں اور دوسروں کو بھی خبردار کریں۔
