تحریر۔۔ رفیع صحرائی
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے انتخابات 9 اپریل کو کروائے جائیں۔ شیخ رشید نے اتوار 19 فروری کو میڈیا ٹاک میں صدر پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کے پی اور پنجاب میں الیکشن کی تاریخ خود دے دیں ورنہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔ صدر مملکت نے الیکشن کی تاریخ دے کر ان کے بیان کی لاج رکھ لی ہے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو خوددونوں صوبوں میں انتخابات کی تاریخ دے دی ہے۔ اس پر فوری ردعمل دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ترجمان نے بیان دیا کہ صدرِ مملکت کی طرف سے سرکاری طور پر احکامات موصول ہونے کے بعد دیکھیں گے کہ قانون کیا کہتا ہے۔ قانون پرہی عمل کیا جائے گا۔
دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن کے اہم رہنما اور وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے صدرِ مملکت عارف علوی کے اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے میڈیا کے سامنے فوری ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ”صدر صاحب کی اتنی اوقات ہی نہیں کہ اس قسم کا حکم دیں، وہ اوقات سے باہر ہو رہے ہیں۔“ انہوں نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے پاس یہ حکم دینے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہی بات دہرائی اور مزیدکہا کہ صدر صاحب اپنے عہدے کی توہین نہ کریں وہ صدر ہی رہیں عمران خان کے ورکر بن کر فیصلے نہ کریں۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف کی بات کی تائید کی کہ صدر کے پاس صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں ہے، یہ اختیار گورنر کے پاس ہے جبکہ گورنر نے وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی توڑی ہو۔ آئین کے آرٹیکل 48 کی کلاز 5 کے تحت صدر صرف قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے اور وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر اس نے قومی اسمبلی تحلیل کی ہو لہٰذا صدر صاحب نے انتخابات کی تاریخ دے کر اپنے آئینی اختیارات سے
تجاوز کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے بھی اپنے فوری ردعمل میں صدر صاحب کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا ہے
حکومتی رہنماﺅں کا یہ بھی موقف ہے کہ صوبائی الیکشن کی تاریخ کا معاملہ اس وقت لاہور ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن کی اپیل پر زیرِ سماعت ہے۔ ایسی صورت میں صدرِ مملکت نے الیکشن کمیشن کوپنجاب اور کے پی میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دے کر نہ صرف اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے بلکہ عدالتی معاملات میں بھی مداخلت کی ہے۔
پی ڈی ایم رہنماﺅں کا یہ موقف بھی سامنے آیا ہے کہ اگر 9 اپریل کو پرانی مردم شماری کے تحت الیکشن ہو جاتے ہیں تو اس سے بڑی قباحتیں سامنے آئیں گی۔ کیونکہ مارچ میں نئی مردم شماری ہو رہی ہے۔ اس کے تحت الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرے گا۔ اگر بعد میں کسی نشست پر ضمنی انتخابات کروانے پڑے تو بڑی پیچیدگی پیدا ہو جائے گی کیونکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ جس سیٹ پر ضمنی الیکشن کروانا مقصود ہو وہ سیٹ کسی دوسرے ضلع میں شفٹ ہو چکی ہو تو انتخاب کیسے ممکن ہو سکے گا اس لےے کہ حلقہ ہی تبدیل ہو چکا ہو گا۔
دیکھا جائے تو پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی سیاسی رسہ کشی نے سنگین صورت حال پیدا کر دی ہے۔ آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کمیشن 90 روز میں نئے انتخابات کروانے کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن انتخاب کروانا چاہتا ہے مگر اس کے پاس انتخابی اخراجات کے لےے فنڈز نہیں ہیں جبکہ وزارت خزانہ نے ملک کی معاشی صورت حال کے پیشِ نظر فنڈز جاری کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ ادھر وزارتِ داخلہ نے ملکی صورتِ حال کے تناظر میں مطلوبہ سیکورٹی دینے سے بھی معذوری کا اظہار کیا ہے۔ ایسی صورت میں الیکشن کمیشن چاہے بھی تو الیکشن نہیں کروا سکتا۔ لگتا ہے اب فیصلہ عدالتوں میں ہی ہو گا۔ ملک میں الیکشن 90 روز سے آگے لے جانے کی تاریخ موجود ہے۔ اب بھی ملکی حالات کو جواز بنا کر الیکشن آگے لے جانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ بظاہر تو الیکشن کا 90 روز کے اندر انعقاد غیر یقینی لگ رہا ہے۔دیکھتے ہیں اونٹ کس قدر بیٹھتا ہے۔
