111

چیئرمین نیب کا استعفیٰ

تحریر۔۔ رفیع صحرائی
نیب کے چیئرمین آفتاب سلطان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہیں 21 جولائی 2022 کو وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کابینہ سے منظوری کے بعد اس عہدے پر تعینات کیا تھا۔ سننے میں آیا ہے کہ گزشتہ تین چار ماہ سے بعض معاملات میں ان پر دباﺅ ڈالا جا رہا تھا جس کی شدت میں گزشتہ ایک ماہ سے اضافہ ہو گیا تھا۔ وہ سات ماہ تک چیئرمین نیب کے عہدے پر فائز رہے اور ان سات ماہ کے دوران نیب نے کل پانچ گرفتاریاں کیں۔ان کے دور میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان میں سے کوئی ایک شخصیت بھی سیاسی یا کاروباری نہیں تھی۔ نہ ہی کسی بیوروکریٹ کو گرفتار کیا گیا۔نیب میں بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے خلاف بہت بڑے بڑے کیسز چل رہے ہیں مگر آفتاب سلطان نے کسی کی گرفتاری کی اجازت نہیں دی۔ ان کا موقف تھا کہ صفائی کا موقع سب کو یکساں صورت میں ملنا چاہےے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی ذات کو طاقت اور اختیارات کا مرکز بنا لیا تھا تاکہ نیب کا کوئی افسر ان سے پوچھے بنا کسی کو گرفتار نہ کر سکے۔ سننے میں آیا ہے کہ ان سے اختیارات ڈی سنٹرلائز کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا مگر انہوں نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا اور عزت کے ساتھ یہ عہدہ چھوڑ دینے کو ترجیح دی۔
اپنے الوداعی خطاب میں آفتاب سلطان نے کہا کہ ”میں کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ نہیں بنا سکتا اور نہ ہی کسی ریفرنس کو اس لےے فارغ کر سکتا ہوں کہ ملزم کسی با اثر شخصیت کا رشتے دار ہے۔ مطمئن ہوں کسی کے دباﺅ میں نہیں آیا“
بظاہر یہ دو جملے ہیں مگر ان دو جملوں نے آفتاب سلطان کے مستعفی ہونے کے پیچھے پوری کہانی واضح کر دی ہے۔ جب انہیں چیئرمین نیب تعینات کیا گیا تو تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود نے آفتاب سلطان پر شہباز شریف کا وفادار ہونے کا الزام لگایا تھا جبکہ تحریک انصاف ہی کے ایک اور رہنما ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے اعلان کیا تھا کہ آفتاب سلطان کی بطور چیرمین نیب تعیناتی کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
آفتاب سلطان ایسے دوسرے سابق بیوروکریٹ تھے جنہیں اس عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔ ان سے قبل سابق بیوروکریٹ قمر زمان بھی چیئرمین نیب رہ چکے ہیں۔ نیب کی تاریخ میں زیادہ تر چیئرمین ریٹائرڈ جرنیل یا اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز بنے ہیں جنہوں نے سیاسی رہنماﺅں کے علاوہ کاروباری شخصیات اور بیوروکریٹس کا بھی خوب احتساب کیا۔ گزشتہ دور میں تو معاشرے کے معزز ترین افراد یعنی اساتذہ کے ہاتھوں میں نہ صرف زندہ بلکہ مردہ حالت میں بھی ہتھکڑیاں لگوا دی گئی تھیں۔ نیب کو ہمیشہ ہی سیاسی مقاصد اور مخالفین کو کچلنے کے لےے استعمال کیا گیا۔ سابق چیرمین نیب ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کا دور نیب کا سیاہ ترین دور گنا جائے گا جب نیب ظلم و بربریت اور خوف و دہشت کی علامت بن گیا تھا۔ جاوید اقبال اپنی شخصی کمزوریوں اور خامیوں کے ثبوتوں کی بنا پر بری طرح قابو میں آ کر بے تحاشہ استعمال بھی ہوئے اور انہوں نے ذاتی من مانیاں بھی کیں۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے نیب کے ادارے کے قیام پر ہی سوالات اٹھا دیے۔ جاوید اقبال کا دور تنازعات سے بھرپور رہا۔ ایسے میں آفتاب سلطان جیسے بااصول شخص کی بطور چیئرمین تقرری بلا شبہ ہوا کا نرم و لطیف جھونکا تھی۔ انہوں نے نیب کو متنازعہ ہونے سے بچانے کے بھرپور عزم کے ساتھ کام کا آغاز کیا۔ وہ اپنے سات ماہ کے دور میں اس معیار پر پورے اترے جس کی توقع ان سے نہیں کی جا رہی تھی۔ پی ٹی آئی کو ان سے خطرہ تھا کہ وہ نواز شریف صاحب سے ذاتی تعلق کی بنا پر پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کے خلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔ مگر انہوں نے پی ٹی آئی کے تمام تحفظات اور خدشات کو بے بنیاد ثابت کر دیا۔
اگر آفتاب سلطان کے کیریئر پر نظر ڈالی جائے تو 1977 میں مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے پولیس سروس میں شمولیت اختیار کی۔ انہیں اپنے کیریئر کے دوران تب بہت شہرت ملی جب 2002 میں پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں وہ سرگودھا میں بطور ڈی آئی جی تعینات تھے۔ انہیں اعلیٰ حکام سے پیغام موصول ہوا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مشرف کے حق میں ووٹ ڈالنے کا کہیں مگر انہوں نے ان احکامات پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ جب رزلٹ آیا تو سرگودھا کا ٹرن آﺅٹ انتہائی کم تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آفتاب سلطان کو معطل کر دیا گیا تھا۔ پولیس میں انہیں ایک نیک نام اور دیانتدار افسر کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔
پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں یوسف رضا گیلانی نے انہیں ڈائریکٹر جنرل انٹیلیجنس بیورو کے عہدے پر تعینات کیا تھا۔ 2013 کے عام انتخابات میں آفتاب سلطان آئی جی پنجاب تھے۔ نواز شریف نے اقتدار میں آ کر انہیں دوبارہ ڈی جی آئی بی کے عہدے پر فائز کر دیا۔ پی ٹی آئی کے دور میں وہ عمران خان کی تنقید کا براہِ راست نشانہ بھی بن چکے ہیں۔2020 میں ان کے خلاف اختیارات سے تجاوز اور بدعنوانی کے الزام میں ریفرنس تیار کرنے کی منظوری بھی دی گئی تھی مگر بعد میں نیب نے یہ ریفرنس واپس لے لیا تھا۔ سابق آئی جی پولیس احسان غنی کے بقول ”آفتاب سلطان بنیادی طور پر ایک سادہ مزاج اور سٹریٹ فارورڈ انسان ہیں۔ جو پروٹوکول کے عادی نہیں تھے اور انہیں آسانی سے کسی بات پر غصہ نہیں آتا تھا۔پولیس فورس میں ان کی دیانتداری اور غیرجانبداری کی تعریف کی جاتی تھی۔ آئی بی کو جس طرح کا چیف
درکار ہوتا ہے آفتاب سلطان شاید پہلے شخص تھے جو اس معیار پر پورا اترے“
آفتاب سلطان کے الوداعی خطاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے جاوید اقبال بننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ درست بندہ ایسی اہم پوسٹ پر وارا نہیں کھاتا۔ پاکستان میں آخر کب تک یہ کھیل چلتا رہے گا؟ سیاسی مخالفتیں کب تک ذاتی دشمنیوں میں بدلتی رہیں گی اور نیب کے ذریعے انتقامی کارروائی کر کے ذاتی دشمنی نکالی جاتی رہے گی؟ کب تک کرپشن میں لتھڑے ہوئے بدنما چہرے نیب کی لانڈری سے صاف شفاف ہو کر نکلتے رہیں گے؟ کب تک ملکی مفادات کوذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہے گا۔؟
اگر آفتاب سلطان کو کسی طرف سے شدید دباﺅ کا سامنا تھا تو جناب وزیراعظم کو ان کی ڈھال بن جانا چاہےے تھا۔ افسوس وہ ایسا نہ کر سکے۔ آفتاب سلطان کے استعفے کے بعد یقیناً کوئی بہت کمپرومائزڈ شخص ہی اب اس عہدے پر تعینات کیا جائے گا جو موم کی ناک بن کر کام کرے گا۔ اللّٰہ تعالیٰ پاکستان پر اپنا رحم و فضل فرمائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں