اسلام آباد، (نیوزمارٹ ڈیسک) پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر عدالتِ عظمی کی جانب سے صدرِ مملکت، الیکشن کمیشن، گورنر خیبر پختونخوا، گورنر پنجاب اور وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کردیئے گئے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بنچ نے پنجاب اور خیبر پی کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔لارجر بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔کیس کی سماعت،سپریم کورٹ میں سماعت کے آغاز پر عدالت نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے، پنجاب اور کے پی اسمبلیاں 14 اور17 جنوری کو تحلیل ہوئیں، آرٹیکل 224/2 کے تحت انتخابات اسمبلی کی تحلیل سے 90 دنوں میں ہونے ہوتے ہیں، آرٹیکل 224 ایک ٹائم فریم دیتا ہے۔عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، چاہتے ہیں انتخابات آئین کے مطابق ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے 3 معاملات کو سننا ہے، صدر پاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 دنوں میں انتخابات ہوں گے، سیکشن 57 کے تحت صدر نے انتخابات کا اعلان کیا ہے، دیکھنا ہے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انتحابات کا مسئلہ وضاحت طلب ہے، ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ آپ سب کو سنیں گے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے سماعت طویل نہیں کریں گے، تیاری کریں کیس کی سماعت سوموار سے ہوگی۔دورانِ سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے سپیکر کی درخواستیں ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا جو کہ فریق نہیں ہے۔
