79

حکمرانوں کے قرض کابوجھ عوام پر

تحریر۔۔رخسانہ اسدلاہور
احتساب کالفظ ہر ذی شعور نے سنا ہوگا اور سیاستدانوں نے ہمیں سمجھایا بھی خوب ہے جو بھی آتا ہے اپنی تجوریاں بھر کے پھر ہوجاتا ہے اگر احتساب کی بات آئے تو سیاسی ٹولے تیرا چور مردہ باد میرا چور زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ اسی لیے عوام ایسے لوگوں سے جان چھڑانامشکل ہوچکاہے مگر اممکن کچھ نہیں ہوتا۔ عوام ایسے لوگوں سے صرف ووٹ کی طاقت سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکستانی حکومت نے میدان مارتے ہوئے جنیوا کانفرنس میں پاکستان کے لیے 10.57 ارب ڈالر کا وعدہ حاصل کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی بلوم برگ میگزین کے ذریعے یہ خبر بھی سامنے آگئی کہ پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ چھ ماہ تک کے لیے ٹل گیا ہے۔ پاکستان کو عالمی بینک 2 ارب ڈالر اسلامی بینک 4.2 ارب ڈالر دے گا اور دوسرے بہت سے ڈونرز نے بھی وعدہ کیا ہے۔ جب پیسہ آنے کی بات آتی ہے تو خوشی ہوتی ہے مگر ہمارے وزیراعظم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کیونکہ ان کو درخواست سے زیادہ مال مل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی امداد کا اعلان پاکستان کی درخواست سے ڈھائی ارب ڈالر زیادہ ہے۔ پاکستان کو آئندہ تین برس میں 8 ارب ڈالر کی ضرورت تھی اور آدھی رقم کا انتظام پاکستان کو خود کرنا ہے۔ سیاستدانوں کا یہ طرز عملسنجھ نہیں آتا کہ اگر ملک کیلئے کچھ کریں تو تنقید نہ کریں تو بہتان کے وار کئے جاتے ہیں اور لیگ پلنگ سے ملک کو کس ڈگر لے جاتے ہیں وہ خود نہیں جانتے اب کی بار اپوزیشن ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا اس قدر شور مچارہی ہے کہ حکومتی حلقوں کے ساتھ غیر جانبدار لوگوں کو بھی یقین آنے لگا ہے کہ ملک ڈیفالٹ ہونے والا ہےجبکہ اور دوسری جانب حکومت بغلیں بجاتی میدان میں آئی ہے کہ اس نے اپنی ضرورت سے بھی زیادہ ڈھائی ارب ڈالر حاصل کرلیے ہیں۔ ہمارے حکمران پہلے بھی بہت قرضے لے چکے ہیں لیکن ملک مسلسل ڈیفالٹ کی سرحد پر کھڑا ہے۔ دوسرے یہ کہ قرضے لینے کے جو نتائج ہوتے ہیں وہ خود حکومت کی زبانی سن لیں کہ آئی ایم ایف نے مطالبہ کردیا ہے کہ پاکستان بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں مزید اضافہ کرے۔ ڈالر ریٹ پر مصنوعی پابندی ختم کرکے مارکیٹ کے مطابق کیا جائے۔ سبسڈیز ختم کی جائیں۔ پاکستان کو ٹیکس اور آمدنی میں 3 سو ارب اضافہ کرنا ہوگا۔ چناں چہ وزیراعظم نے رحم کی بھیک بھی مانگ لی اور کہا کہ آئی ایم ایف سربراہ رحم دلی کا مظاہرہ کریں تاکہ پاکستان ڈیفالٹ نہ ہوسکے۔ پاکستان کو سانس لینے کا موقع دیں، غریب عوام پر بوجھ ڈالنا غیر انسانی عمل ہوگا۔ حکومت ان دو مسائل میں گھری ہوئی ہے کہ آئی ایم ایف اور ڈونرز سے قرضے لے یا نہ لے۔ نہ لے تو ڈیفالٹ کی طرف جائے، یا لوگوں کو روٹی سو روپے اور پٹرول تین سو روپے میں دے کر اپنے اخراجات بھی پورے کرے اور قرضے بھی اُتارے۔ دوسری صورت کے لیے حکومتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو حکومتوں پر اعتماد نہیں ہوتا، حکومتوں میں پارلیمان میں موجود تمام لوگ، حکومت کابینہ، بیوروکریسی، فوج اور عدلیہ سب شامل ہیں۔ ان اداروں اور لوگوں نے عوام کے بھروسے کا اتنا بھرکس نکالا کہ اب عوام ان میں سے کسی پر اعتماد نہیں کرتے۔ صرف اچھے اچھے الفاظ کے دھوکے کھاتے ہیں۔ اگر کوئی حکمراں عوام میں اپنا اعتماد قائم کردے تو یہ ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا قرضہ چند برسوں میں اُتر سکتا ہے۔ ان لوگوں میں یا کم از کم جس فیکٹری کی پیداوار یہ سیاسی ٹولے ہیں ان میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے یا جیسا کہا جاتا ہے کہ ان کے پیکیج میں یہ شامل نہیں ہے۔ جو قرضے حکمرانوں نے پہلے لیے تھے ان کا کیا بنا۔ جواب ملنا کوئی مشکل نہیں کیونکہ صرف چار حکومتوں کا دیکھ لیں جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان نے 17.503 ارب ڈالر قرض لیا۔ ان کے بعد پیپلز پارٹی آئی اس نے 25.008 ارب ڈالر قرض لیا، پھر مسلم لیگ (ن) کیوں پیچھے رہتی اس نے 49.761 ارب ڈالر قرض لیا۔ ان سب کو چور اور ملک دشمن کہنے والے عمرانی حکومت نے اکیلے 52 ارب ڈالر قرض لے لیایہاں تک کہ سرکاری گاڑیاں بھینسیں پتہ نہ کیا کچھ قرض اتارنے کے نام پر یچے گئے۔ یہ سب آئی ایم ایف سے قرض لیتے رہے اور اپنی اپنی حکومت سے نکل کر قرض لینے والوں کو برا کہتے رہے۔ ان سب کے جانے کے بعد دسمبر 2022ءتک پاکستان 130 ارب ڈالر سے زیادہ کا مقروض تھا۔ یقینی طور پر اس رقم سے بہت سا پیسہ پچھلے قرضے کی قسط دینے پر خرچ ہوگیا ہوگا لیکن بہت بڑی رقم پاکستانی حکومت کے خزانے میں آئی۔ وہ کہاں گئی ان سے کتنے کارخانے لگائے، ملکی برآمدات کو کتنا فائدہ پہنچایا گیا، درآمدات کم کرنے کے لیے کون سی صنعتیں لگائی گئیں، کتنے تعلیمی ادارے، کتنے کالج، کتنی یونیورسٹیاں، کتنی لائبریریاں بنائی گئیں۔ سڑکیں، پل، انڈرپاسز، پارک اور روشنیاں کی تو بات کرنا ہی بھول ہوگی۔ صحت کے شعبے کو کیا دیا۔ لمبی لمبی زبانوں والے یہ حکمران بتا نہیں سکتے کہ انہوں نے اتنی بڑی بڑی رقوم کہاں خرچ کیں۔ ایک دوسرے کو کرپٹ،چور، نالائق، ملک دشمن، غدار وغیرہ کہنے والے کہاں ہیں، یہ ان کی اصل تصویر ہے، ان کے ہاتھوں جو لوٹ مار ہوئی ہے وہ بھی رفتہ رفتہ سامنے آتی ہے۔ لیکن پاکستانی عوام کے کیا کہنے وہ سارا کچھ دیکھ کر بھی اپنے اپنے ہیرو کے سحر میں مبتلا رہتے ہیں.اب بھی وقت ہے اگر ہم ان سیاستدانوں کی اندھی محبت اتنی نکلے تو جا ملک کو زندہ باد پائندہ باد کہتے ہیں یہ اسے نگل جائیں گے اور ڈکار بھی نہیں لیں گے۔ اس سے پہلے یہ لوگ ملک کو نقصان پہنچا کر باہر کے ممالک جاکرہمارے ملک کے پیسے پرویز کریں ہمیں انی گردن سے پکڑ کردبوچنا ہوگا تاکہ ملک کا قرضہ اتر جائے ہر طرف خوشحالی ہو اور سب کے چہرے پرمسکان سجی ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں