تحریر۔۔ رفیع صحرائی
رزقِ حلال کا حصول بلاشبہ عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر حرام اور حلال کا فرق دیکھنا ہو تو اس کا آسان سا طریقہ یہ ہے کہ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے، رشوت خور سرکاری ملازم، ذخیرہ اندوز تاجر یا دیگر ناجائز ذرائع سے کمائی کر کے اولاد کی پرورش کرنے والے شخص کی اولاد گستاخ اور نافرمان ہو گی۔ اس شخص کی عمر کا آخری حصہ نہایت بے چارگی سے گزرے گا۔ وہ پیچیدہ امراض میں بھی مبتلا ہو گا اور ایسے عالم میں اولاد کی بے توجہی کے کرب سے بھی گزرے گا۔ جس اولاد کی خاطر اس نے ناجائز طریقے سے آمدنی اکٹھی کی ہو گی وہی اولاد اس سے تنگ آ جائے گی۔ مرنے کے بعد اس کی قبر کی ویرانی آپ کو بتا دے گی کہ اس نے کس قدر گھاٹے کا سودا کیا۔
ہم رشوت لینے، ذخیرہ اندوزی اور اشیاءکو مہنگا بیچ کر ناجائز منافع کمانے دو نمبر مال بیچنے یا ہیرا پھیری کو ہی رزقِ حرام سمجھتے ہیں مگر زیرِ نظر واقعہ نے رزقِ حرام کے ایک ایسے پہلو سے روشناس کرایا جس کی طرف ہماری توجہ کبھی گئی ہی نہیں۔ یہ واقعہ مجھے میرے دوست بشیر احمد خان نے سنایا جو پیشے کے لحاظ سے معلم ہیں۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ سروس کے دسویں سال میری خواہش پر مجھے شہر کے ایک بڑے سکول میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔ دراصل بچے بڑے ہو رہے تھے اور میں چاہتا تھا کہ انہیں اچھی تعلیم دلائےں جو شہر میں ہی ممکن تھی۔ میری دس سال کی پوری سروس ہی دیہاتی سکولوں میں پڑھاتے ہوئے گزری تھی۔ میرا اپنا تعلق بھی ایک گاوئں سے تھا اور اب بچوں کی وجہ سے میں نے شہر منتقلی کا فیصلہ کیا تھا۔
گاﺅں کے سکول سے فارغ ہو کر میں حاضری کے لئے نئے سکول میں پہنچ گیا۔ یہ بہت بڑا سکول تھا۔ ایک سو کے قریب تو اساتذہ ہی تھے۔ خیر میں اجازت لے کر ہیڈ ماسثر صاحب کے دفتر میں داخل ہوا اور ٹرانسفر آرڈرز کے ساتھ ہی حاضری رپورٹ بھی ان کے سامنے پیش کی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب بڑی باوقار شخصیت کے مالک نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے کاغذات کا بغور جائزہ لینے کے بعد میری طرف توجہ کی اور چھوٹتے ہی بولے ”آپ کو حرام کھانے کی عادت تو نہیں“؟
میں بری طرح بوکھلا گیا، یہ کیسا عجیب سوال ہے؟ مجھے غصہ بھی آ رہا تھا اور حیرانی بھی تھی کہ پہلا تعارف ہی احمقانہ اور فضول سوال سے ہوا تھا۔ میں نے حواس مجتمع ک?ے اور خود پر قابو پاتے ہوئے بولا
”سر! الحمداللّٰہ میرا تعلق متمول گھرانے سے ہے، پھر میں خود بھی معلمی جیسے معزز پیشے سے وابستہ ہوں۔ میں نے حرام کا ایک لقمہ بھی کبھی نہیں کھایا“
وہ مسکرا دیئے، مجھے ان کی مسکراہٹ میں بھی طنز نظر آنے لگا تھا۔ میری طرف دیکھتے ہوئے بولے ”چلیں خیر، آپ کے رزق کا آڈٹ بھی ہو ہی جانا ہے“ ان کو ریٹائرمنٹ کی اشد ضرورت ہے، میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
میں آفس سے باہر نکل آیا۔ مجھے بتایا گیا کہ چھٹی اور ساتویں کلاس میں مجھے روزانہ پانچ پریڈز پڑھانے ہوں گے۔
اپنی دس سالہ سروس کے دوران میں نے کبھی بلاضروت سکول سے چھٹی نہیں کی تھی۔ کبھی کسی طالب علم سے کوئی تحفہ قبول نہیں کیا تھا۔ ایک چائے کا کپ تک کبھی نہیں پیا تھا کہ میں اسے اپنے لئے حلال نہیں سمجھتا تھا۔ رزقِ حلال پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا تھا نہ ہی اپنے بچوں کو حرام کھلانا چاہتا تھا۔
ایک ہفتے بعد مجھے ہیڈ ماسٹر صاحب کی طرف سے بلاوا آ گیا۔ میں دفتر پہنچا اور اجازت لے کر ان کے سامنے بیٹھ گیا۔
”بھئی خان صاحب آپ کے رزقِ حلال کی آڈٹ رپورٹ آ گئی ہے، سوچا آپ کے ساتھ شیئر کر لوں“ ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا۔
عجیب آدمی ہے یہ، مجھے ان کی دماغی حالت پر شک ہونے لگا تھا۔
انہوں نے سامنے پڑے کاغذ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”سننا چاہیں گے آپ؟“
”جی سر“!
انہوں نے اوپر نیچے سر کو ہلایا اور بولے
”خان صاحب آپ کی تنخواہ ساٹھ ہزار روپے ہے۔ گویا ایک دن کے آپ دو ہزار روپے وصول کر رہے ہیں۔ یہ دو ہزار روپے آپ کی روزانہ پانچ گھنٹے سکول میں اپنا کام کرنے کی اجرت ہے، یعنی آپ چار سو روپے فی گھنٹہ وصول کر رہے ہیں۔“
”جی سر“! میں نے اثبات میں سر ہلایا۔
وہ کہنے لگے، ”آپ نے اپنے پہلے ہفتے کے دوران ایک پریڈ میں 16 منٹ اور ایک پریڈ میں نو منٹ پہلے کلاس چھوڑ دی۔ دو مرتبہ آپ نے پندرہ اور بیس منٹ پریڈ کے دوران فون کال سنی۔ ایک مرتبہ اپنے ایک دوست کے ساتھ پندرہ منٹ تک کلاس روم میں دورانِ پریڈ بیٹھے رہے اور کلاس کو کوئی کام نہیں کروا سکے۔ ایک دن آپ کلاس میں پندرہ منٹ لیٹ پہنچے۔اس طرح سے ڈیڑھ گھنٹہ اس ایک ہفتے کے دوران آپ نے اپنے فرائض ادا نہیں کئے۔ اس ایک ہفتے کی تنخواہ میں سے 600 روپے رزقِ حرام ہیں“
میں ہکا بکا اور شرمندہ سا ان کے آڈٹ کے بارے میں سوچتے ہوئے ان کی طرف دیکھے جا رہا تھا
”خان صاحب! آپ اپنا وقت تنخواہ کے عوض بیچ چکے ہیں، ہر وہ منٹ جو آپ نے ضائع کیا وہ لقمہ حرام کا موجب بن گیا۔ اور ہاں، اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ آپ کی کلاس میں پچاس طالب علم پڑھتے ہیں۔ آپ نے اپنا ہی نہیں بلکہ ان کا بھی ڈیڑھ گھنٹہ ضا?ع کیا، یعنی آپ نے قوم کے 75 قیمتی گھنٹے ضائع کر دیئے“
میں بہت شرمندہ سا ان کے سامنے بیٹھا تھا۔ مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ صرف رشوت، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز ذرائع سے آنے والی آمدنی ہی حرام نہیں ہوتی، اپنے فرائض سے غفلت یا کوتاہی کر کے پورا معاوضہ وصول کرنا بھی رزقِ حرام کے زمرے میں آتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو رزقِ حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
