تحریر۔۔نسیم الحق زاہدی
زمانہ قدیم سے انسانی معاشروں نے بہت سے تلخ اور دردناک بحرانوں، آفات اور آفات کا سامنا کیا ہے، چاہے وہ گھناو¿نے اور خوفناک انسانی المیوں کے نتیجے میں ہوئے ہوں۔ عرب دنیا کے ممالک میں بڑھتے ہوئے انقلابات اور جنگیں جیسے: فلسطین، شام، یمن، عراق وغیرہ یا قدرتی آفات، جیساکہ زلزلے، طوفانوں سے نبرد آزما ہے ۔مسلم مو¿رخ ابن کثیر الدمشقی نے اپنی کتاب ”ابتداءاور اختتام“میں اس خوفناک زلزلے کی تباہی کے بارے میں بتایا ہے جو 597 ہجری میں عراق کے بڑے علاقوں میں آیا تھا۔ لیونٹ اور ترکی، اور اسے تقریباً وہی علاقے سمجھا جاتا ہے جہاں موجودہ صدی کا زلزلہ آیا تھا۔اس ”خوفناک واقعے“ کے بارے میں مو¿رخ اپنی کتاب میں کہتا ہے”یہ ایک بہت بڑا زلزلہ تھا جو لیونٹ سے شروع ہو کر جزیرے، رومیوں اور عراق کی سرزمینوں تک پہنچا، نابلس میں صرف سامریہ کا آدھا سے بھی کم حصہ بچا ، اس میں 30,000 لوگ مارے گئے تھے اور اس کے گاو¿ں ملبے تلے دب گئے تھے ۔ سمندر قبرص میں جا گرا، اور کشتیاں اس سے اس کے ساحل تک چلی گئیں، اور وہ مشرق کی طرف بڑھ گیا، ۔شام اور ترکی میں تباہ کن اور دردناک زلزلے کے نتیجے میں جو کچھ دو برادر قوموں، شامی اور ترکی کے ساتھ ہوا، وہ واقعی ایک المناک انسانی تباہی ہے، ایک ایسی تباہی جس نے دلوں کو لہولہان کر دیا اور انسانی ضمیروں کو جھنجھوڑ دیا۔ خوفناک مناظر اور ان مناظر کی ہولناکی جو براہ راست بصری میڈیا چینلز کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچائی گئی۔ ترکیہ اور شام میں بے شک تاریخ کے حالیہ ہولناک زلزلے نے تباہی کا سو سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے ۔28ہزار سے زائد جانیں جا چکی ہیں، لاکھوں زخمی ہیں۔ہزاروں بچے یتیم و عورتیں بیوہ ہو گئیں ، فلک بوس عمارتیں زمین بوس ، سڑکیں زمین دوز ہو گئیں ،ہزاروں ملبے تلے دبے ہیں، متاثرین برف بار ی ، ٹھٹھرتی سردی میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبورہیں ۔ اللہ کی مشیت کے آگے ساری ٹیکنالوجی اور سائنس فیل ہو چکی ہے ۔ اتنی ترقی کرنے کے باوجود بھی انسان ابھی تک ایسی ٹیکنالوجی تک نہیں پہنچا ہے جو اسے زلزلوں کی موجودگی کی درست پیشین گوئی کرنے کے قابل بنائے، اور اب وہ کیا کر سکتا ہے کہ عمارتوں کے انجینئرنگ کوڈز کو زلزلے کے خلاف مزاحم بنانے کے لیے تیار کیا جائے، جس سے انسانوں کو زلزلے کے خطرات میں کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔البتہ سائنسدانوںنے اس ضمن مین اتنی کامیابی تو حاصل کر لی کہ کہ وہ یہ معلوم کرلیںکہ زلزلہ کتنا طاقتور ہے۔امریکہ کے جرمن نژاد سائنسدان فرانسس ریچرڈ نے 1937ءمیںایک ایسا آلہ بنانے میںکامیابی حاصل کر لی تھی جس کے ذریعے دنیا یہ جاننے میں کامیاب ہو گئی کہ زلزلہ کتنا طاقتور تھا ۔اسی آلے کو ریچرڈ کے نام سے منسوب کر دیا گیا ۔دنیا بھر کے ماہرین اسی سکیل کے ذریعے اس کی پیمائش کرتے ہیں ۔چونکہ ترکی شام کا زلزلہ صبح 4:30 پر آیا تھا، اس لیے بچوں اور بوڑھوں کی خواتین کی ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ اور خوفناک تھی۔ خاص طور پر شمال اور شمال مغربی علاقوں میں، لاپتہ افراد کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہو سکا۔ترکیہ کے جنوب اور شمالی شام میں اس زلزلے کی شدت 7.8 بتائی گئی ۔اس کی گہرائی تقریباً 17.9 کلومیٹر تھی۔زلزلے کا مرکز شام کی سرحد کے قریب ترکیہ کے جنوب میں غازی انتپ تھا۔ یہ شہر آدانا کے شمال مشرق میں 185 کلومیٹراور حلب، شام سے 97 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ جبکہ اس کے جھٹکے قبرص، یونان، شام، اردن،لبنان اور فلسطین میں بھی محسوس کیے گئے۔ یہ1939 ءکے بعد سے ہولناک زلز لہ ہے۔ شام جو پہلے ہی 11 برس سے خانہ جنگی کا شکارہے۔ 2011 ءمیں شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی جانب سے عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں نے شام کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔موجودہ شدید زلزلے کے دوران امدادی کارروائیوں کے پیشِ نظر مغربی اقتصادی پابندیوں نے بلاشبہ شام کی صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔بے بس و بدنصیب شامی زلزلے کی تباہ کاریوں کے پیشِ نظر اپنے ہاتھوں سے ملبے میں کھدائی کر تے ہوئے تصاویر میں دیکھے جا سکتے ہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس کافی سازوسامان نہیں ہے۔ان کے پاس ملبے میں دبے لوگوں کو بچانے کے لیے آلات نہیں ہیں، اور وہ مغربی بے حسی کا شکار ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں شام کے مستقل مندوب نے کہا کہ امریکی پابندیوں نے شام میں زلزلے کے بعد امداد کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ عرب ہلال احمر نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک پر بھی زور دیا ہے کہ وہ شام پر کئی سالوں سے عائد پابندیوں کو منسوخ کردیں۔اس وقت دنیا کو تمام سیاسی عوامل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زلزلے سے بچاو¿ کو ایک انسانی مسئلہ کے طور پر لینا چاہئے۔ِ شام کے مسلمانوں پر جو قیامت گزری وہ ایک المناک اور درد ناک داستان ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اقوام متحدہ کب اپنا کردار ادا کر ے گا؟مسلم تنظیمیں کیا کر رہی ہیں؟۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پاکستان سمیت مسلم امہ ترکیہ اور شام کے ساتھ انسانی ہمدردی کا جذبہ اسلامی اخوت کی عمدہ مثال بن کر سامنے آئی ہے ۔اور سرورِ کونین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حادیث پاک کی عملی تصویر پیش کر رہی ہے ۔آپ نے فرمایا ”باہمی محبت اور رحم وشفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضاءبے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔“اس صورت حال میں ہرمسلمان کو ان کی تکلیف کا احساس ہونا چاہیے اور عالَم کے مسلمانوں کو حسبِ استطاعت ان کی مدد کرنی چاہیے، کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں“۔پوری قوم کی دعائیں دکھ کی اس گھڑی میں اپنے ترکی اور شام کے بھائی بہنوں کے ساتھ ہیں ۔ سلطنت عثمانیہ کے دور خلافت میں بھی برصغیر کے مسلمانوں نے ہمیشہ ترک عوام کی مشکل کے وقت میں مدد کی۔ خلافت کے ختم ہونے کے بعدیہ عقیدت اور محبت ہماری نسلوں میںسینہ بہ سینہ پروان چڑھتی رہی۔اب یہی موقع ہے کہ آج ہم اس آزمائش کے وقت ان کے ساتھ کھڑے ہوں ۔ جس طرح 2005ءمیں ترکی ہمارا ساتھ کھڑا ہوا تھا ۔ وزیر اعظم پاکستان نے دس ارب ڈالر کے فنڈ کا علان کیا اور اس کے ساتھ ساتھ امدادی سامان پر مشتمل جہاز بھی شام اور ترکی پہنچائے گئے ہیں۔ترکی میں زلزلہ متاثرین کی مدد کیلئے پاک فوج کے دستے بھی امدادی کارروائیوں میں مشغول ہیں۔ بے شک دونوں ریاستیں ثقافتی اور مذہبی روابط سے جڑی ہوئی ہیں۔ترکی ان اولین ممالک میں سے ایک تھا جن کے ساتھ پاکستان نے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ 1948 ءمیں پاکستان میں ترکی کا پہلا سفیر تعینات ہوا۔یہاں تک کہ ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں ترک رہنماو¿ں نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی حمایت کرنے والے واضح عوامی بیانات دیے۔ 1999 ءمیں، ترک حکومت نے پاکستان اور بھارت کے درمیان لاہور اعلامیہ کی حمایت کی ، جس کا مقصد بڑے تنازعات کو حل کرنے کے لیے مناسب بنیاد فراہم کرنا تھا۔اس کے علاوہ ترک سفیر نے کشمیر کاز کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں ایک ہفتہ گزارا۔صدر رجب طیب اردوان نے واضح طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ تنازعہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ اردوان کا یہ بیان پاکستان اور ترکی کے تعلقات کی مضبوطی کی نشاندہی کرتا ہے، جس کی وجہ سے بھارت کی مخالفت ہوئی۔ لہذا یہ وقت ہے کہ اپنے سیاسی اختلافات کو بھول کر یک جہتی کا مظاہرہ کریں اور اپنی میسر طاقت و قوت کے ذریعے اپنے بھائیوں بہنوں کی مدد کریں ۔
